جامعہ کے بارے میں
ہندوستان میں اسلامی مدارس کا وجود دین کی حفاظت اور پاسبانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، بالغ نظر علماء و مفکرین نے اس کے طول و عرض میں مدارس قائم کرنے کی ہمیشہ دعوت بھی دی ہے اور کوشش بھی کی ہے ، جہاں سے ایک طرف علوم اسلامیہ کے نشر و اشاعت اور دوسری طرف امت مسلمہ کی اصلاح و تربیت کا فریضه انجام دیا جاتا رہا ہے۔
ہندوستان کے مشہور و معروف عالم دین و محدث جلیل حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری دامت برکاتہم نے اسی مقصد کے پیش نظر۱۴۰۹ھ مطابق ۱۹۸۹ء میں اپنے وطن مظفرپور ، اعظم گڑھ میں”جامعہ اسلامیہ” کے نام سے ایک ادارہ قائم فرمایا۔
اس جامعہ کی خوش قسمتی تھی کہ شروع ہی سے ہندوستان کے سبھی اکابر حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اﷲ مرقدہ ، حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاپ گڑھی نوراﷲ مرقدہ،حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نوراﷲ مرقدہ،حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب جونپوری نوراﷲ مرقدہ، حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی نوراﷲ مرقدہ اور حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اﷲ علیہ کے خلفاء کی توجہات و دعائیں حاصل رہیں۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی نوراﷲ مرقدہ نے تو ان الفاظ کے ساتھ خصوصی دعا فرمائی تھی کہ : "یہ ناکارہ دعا کرتا ہے کہ آپ کے یہاں کا مکتب ایک بڑے مدرسہ کی شکل اختیار کر لے”، انہی دعاؤں کی برکت سے اس جامعہ نے بہت جلد حیرت انگیز ترقی کی اور ہندوستان کے بڑے اہم اور مثالی مدارس میں اس کا شمار ہونے لگا۔
الحمد ﷲ اس وقت تقریباً ایک ہزار طلبہ دار الاقامہ میں مقیم ہیں،اساتذہ وملازمین کی تعدادایک سو پچیس ﴿۱۲۵﴾ کے قریب ہے،اور اس کے کتب خانے میں ایک لاکھ ﴿۱۰۰000﴾ سے زائد کتابیں جمع ہو گئی ہیں اور یہ کتب خانہ نہ صرف ہندوستان بلکہ عالم اسلام کے اہم کتب خانوں میں شمار ہونے لگا ہے۔
اس جامعہ میں ثانویہ اولی سے عالیہ رابعہ تک کے عربی درجات قائم ہیں، اسی کے ساتھ شعبہ حفظ کو(جو نو درجات پر مشتمل ہے) منظم طور پر شعبہ تجوید و قراءت کے ساتھ چلایا جا رہا ہے، پرائمری کے درجات کی تعلیم مظفرپور گاوں کے "مدرسہ قباء” میں ہوتی ہے جو جامعہ کے زیر نگرانی سرگرم عمل ہے، متعدد مکاتب و مدارس بھی جامعہ کے زیر نگرانی چل رہے ہیں جو مختلف علاقوں میں قائم ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی، خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی لکھنؤ اور بنارس ہندو یونیورسٹی بنارس نے جامعہ کی سند کو تسلیم کر لیا ہے، اسی طرح مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد نے یہاں کی سند کو بی۔اے کے برابر تسلیم کیا ہے، لہذا یہاں کے طلبہ مولانا آزاد یونیورسٹی میں ایم۔اے میں داخلہ لے سکتے ہیں، مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ بہار نے بھی یہاں کی سند کو ملازمت کے لئے عالم "گریجویشن” کے مساوی تسلیم کیا ہے۔
اس ادارہ سے فارغ ہونے والے طلبہ کی تعداد تین سو سے متجاوز ہے جو ہند و بیرون ہند اپنی معاشی سرگرمیوں کے ساتھ علم و دین کی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں، شعبہ حفظ سے فارغ ہونے والے طلبہ کی مجموعی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔
الحمد للہ یہ ادارہ بڑی سرعت و تیز رفتاری کے ساتھ اپنے بانی وناظم اعلی محدث جلیل حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری دامت برکاتہم کے زیر نگرانی ترقی کی طرف گامزن ہے، آئندہ شعبہ اختصاص فی الحدیث قائم کرنے کا بھی ارادہ ہے، اللہ تعالی اس کو قبول فرمائے اور ہر طرح کے شر وروفتن سے حفاظت فرمائے۔